fbpx
خبریں

نواز شریف پر چارج صحیح فریم نہیں ہوا: چیف جسٹس عامر فاروق

اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیر کو ایون فیلڈ اور العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنسز میں نواز شریف کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’معذرت کے ساتھ نہ چارج صحیح فریم ہوا اور نہ نیب کو پتہ تھا کہ شواہد کیا ہیں؟‘

نواز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ’احتساب عدالت نے کرپشن الزام سے بری کیا مگر آمدن سے زیادہ اثاثوں میں سزا سنائی۔‘

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ایک عوامی نمائندہ کے اثاثے اگر معلوم آمدن سے زائد ہیں تو بغیر کرپشن کے وہ یہ کیسے بنا سکتا ہے؟‘ اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ ’سمجھ سے باہر ہے کہ بنیاد ختم ہو گئی تو عمارت کیسے کھڑی رہ گئی؟‘

پیر کو ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیلوں کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کی۔ نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلیں بحال ہونے کے بعد آج دوسری سماعت تھی۔

نواز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ دلائل کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے پانامہ کیس کی سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’2017 میں سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔‘

عدالت نے استفسار کیا کہ ’یہ جو فیکٹ آپ نے دیے کیا یہ ریفرنس دائری سے پہلے کے ہیں؟‘ تو امجد پرویز نے جواب دیا کہ ’تین حقائق ریفرنس سے پہلے ہیں باقی بعد کے ہیں۔‘

اس کے بعد وکیل امجد پرویز نے جے آئی ٹی کی تشکیل، ٹی او آرز اور جے آئی ٹی ارکان سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے جولائی 2017 میں نااہل قرار دے کر ریفرنسز دائر کرنے کی ہدایات کیں۔‘

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے استفسار کیا کہ ’فیصلے میں چیئرمین نیب کو کیا ہدایات دی گئیں؟ سپریم کورٹ کی کارروائی الگ معاملہ، چیئرمین نیب کو معاملہ بھجوانے کے بعد کیا ہوا وہ بتائیں؟‘

امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ ’نیب کو فیصلے کے چھ ہفتوں کے اندر ریفرنسز دائر کرنے کی ہدایت کی گئی۔  ریفرنسز پر چھ ماہ میں فیصلہ کرنے کی بھی ڈائریکشن دی گئی، نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس دائر کیا گیا، اس کے علاوہ نواز شریف ، حسن اور حسین نواز کیخلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس دائر کیا گیا، نیب نے کہا کہ سپریم کورٹ آرڈرز کی روشنی میں ان کے پاس ریفرنس بنانے اور دائر کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔‘

عدالت نے استفسار کیا کہ ’سپریم کورٹ تو ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کرچکی تھی پھر نیب نے تفتیش کا کیوں کہا؟‘

امجد پرویز نے جواب دیا کہ ’نیب نے ضابطے کی کاروائی کو پورا کرنے کے لیے ایسا کیا گیا، ایون فیلڈ ریفرنس میں دس سال اور العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی، فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف احتساب عدالت سے بری ہوئے تھے۔‘

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے بریت کے خلاف اپیل دائر کی تھی؟

امجد پرویز نے جواب دیا کہ ’نیب نے بریت کے خلاف اپیل دائر کی تھی، اس پر ابھی تک نوٹس نہیں ہوا۔‘

امجد پرویز نے مزید بتایا کہ ’نواز شریف پر ایون فیلڈ ریفرنس میں اکتوبر 2017 میں فرد جرم عائد کی گئی، جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم ٹین کی دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں، والیم ٹین میں باہمی قانونی معاونت کے لیے مختلف ممالک کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت سے متعلق دستاویزات تھیں۔‘

جسٹس حسن اورنگزیب نے سوال پوچھا کہ ’آپ نے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی بھی ایک درخواست دائر کی تھی، جج صاحب نے ایک ریفرنس کو جلدی سے چلا کر فیصلہ سنایا اور دو پر کارروائی کو روک دیا تھا۔‘

امجد پرویز نے بتایا کہ ’فیصلے کے بعد دیگر ریفرنسز دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست دی تھی، درخواست کے عدالت میں زیرسماعت ہونے کے دوران ہی جج محمد بشیر نے کیس سننے سے معذرت کر لی تھی، نیب نے ایک ابتدائی تفتیشی رپورٹ جمع کرائی اور بعد میں ضمنی تفتیشی رپورٹ دی، ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں صرف سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا، نیب نے ٹی وی انٹرویوز پیش کیے، نواز شریف کی اسمبلی فلور پر کی گئی تقریر کا حوالہ دیا، ایک گواہ رابرٹ ریڈلے پیش کیا جو نواز شریف کی حد تک کیس میں متعلقہ گواہ نہیں، نیب نے گواہوں کے بیانات کے علاوہ کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے۔‘

جسٹس حسن اورنگزیب نے اس موقع پر ریمارکس دی: ’کیا نیب نے صرف ڈاکیے کا کام کرنا تھا یا اپنا مائنڈ بھی استعمال کرنا تھا؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ پوری جے آئی ٹی رپورٹ نیب نے ریفرنس میں شامل کر دی؟‘

امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’نیب نے کال اپ نوٹس بھیجنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا، نواز شریف کو مالک اور مریم نواز سمیت دیگر بچوں کو بے نامی دار ثابت کرنے کا بوجھ پراسیکیوشن پر تھا، ہمارا موقف یہی رہا کہ چارج بھی غلط فریم ہوا ہے، نیب نے مریم نواز بینفشل اونر ثابت کرنے کی کوشش ضرور کی مگر اس الزام کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔‘

چیف جسٹس نے دو گھنٹے دلائل سننے کے بعد کہا کہ ’آج سماعت کو یہاں پر ہی ختم کرتے ہیں، اپیلوں پر مزید سماعت بدھ کے روز کی جائے گی۔‘

سیکورٹی ایشو ہونے کی وجہ سے نواز شریف کی حاضری سے استثنا کے معاملے پر چیف جسٹس نے کہا، ’استثنیٰ کی درخواست دائر کریں پھر اس معاملے کو دیکھیں گے۔‘

ایون فیلڈ کے بعد العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں اپیل پر دلائل کا مرحلہ آئے گا۔ جبکہ نیب نے کہا تھا کہ وہ آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کر لیں گے۔ آج کی سماعت میں بھی نواز شریف ن لیگی رہنماؤں کے ہمراہ عدالت پہنچے تھے لیکن میڈیا نمائندگان سے غیر رسمی گفتگو نہیں کیونکہ ان کے ارد گرد موجود سیکیورٹی نے میڈیا نمائندگان کو بات کرنے سے منع کیا۔

نواز شریف کی سزائیں

اپریل 2016 میں پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آیا جس کے مطابق میاں نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے متعلق دستاویزات بھی اس میں شامل تھے۔

اس کے بعد تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے پانامہ پیپرز کی بنیاد پر نواز شریف کے اثاثوں سے متعلق اور نااہلی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر دیں۔

20 اکتوبر 2016 کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف پاناما کیس قابل سماعت قرار دے دیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، 20 اپریل 2017 کو پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا جس میں دو جج صاحبان کی جانب سے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا جبکہ تین ججوں کے فیصلے میں مشترکہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کی سفارش کی گئی۔

تین مئی 2017 کو پانامہ بینچ کے حکم پر چھ افراد پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی گئی، ٹیم کو دو ماہ میں تحقیقات ختم کرنے کی ہدایت دی گئی۔

10 جولائی 2017 کو پاناما کیس کی مشترکہ تحقیقات کے لیے بنائی گئی ٹیم نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس کے بعد 28 جولائی2017 کو آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے فیصلہ سنایا۔

پانامہ کیس کا فیصلہ

سپریم کورٹ نے 25 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ ’نواز شریف نے ’کیپیٹل ایف زیڈ ای‘ سے متعلق کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپائے، نواز شریف عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 12 کی ذیلی شق ’ٹو ایف‘ اور آرٹیکل 62 کی شق ’ون ایف‘ کے تحت صادق نہیں رہے، نواز شریف کو رکن مجلس شوریٰ کے رکن کے طور پر نااہل قرار دیتے ہیں، الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن فوری طور پر جاری کرے، نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔‘

سپریم کورٹ نے فیصلے میں نیب کو نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف لندن کے چار فلیٹس سے متعلق ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا جبکہ نواز شریف، حسن اور حسین نواز کے خلاف عزیزیہ سٹیل ملز سمیت بیرونی ممالک میں قائم دیگر 16 کمپنیوں سے متعلق بھی ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی۔

ایون فیلڈ ریفرنس میں الزامات

2016 میں پاناما لیکس کے بعد نواز شریف کے خاندان سمیت ہزاروں لوگوں کی آف شور کمپنیوں کی تفصیلات سامنے آئیں، پانامہ لیکس کے مطابق لندن کے پوش علاقے’مے فیئر‘ میں واقع ایون فیلڈ فلیٹس نیلسن اور نیسکول آف شور کمپنیوں کی ملکیت ہیں اور ان کمپنیوں کے مالک نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز ہیں۔

یہ فلیٹس 1993 سے میاں نواز شریف کے اہل خانہ کے زیر استعمال ہیں جبکہ احتساب عدالت میں جمع کرائے گئے نواز شریف کے جواب کے مطابق ’یہ قطری شاہی خاندان کی ملکیت ہے جہاں انہوں نے 2006 تک رہائش اختیار کیے رکھی۔ چوں کہ یہ قطری شاہی خاندان اور مرحوم میاں محمد شریف کے درمیان زبانی معاہدہ تھا اس لیے اس کے دستاویزات میسر نہیں ہیں۔‘

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں دلائل دیے تھے کہ ’نواز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ کے دوران حسن اور حسین نواز کے نام بے نامی جائیدادیں بنائیں، اس دوران بچے زیر کفالت تھے، بچوں کے نام 16 آف شور کمپنیاں بنائی گئیں۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’غیر قانونی ذرائع سے حاصل شد رقم سے ان فلیٹس کو خریدا گیا ہے۔ پہلا فلیٹ 1993 میں نیسکول کمپنی نے خریدا، ایون فیلڈ ہاؤس میں مزید دو فلیٹس نیلسن کمپنی نے 1995 میں خریدے اور چوتھا فلیٹ 1996 میں نیسکول کمپنی نے خریدا۔ نیب کے مطابق فلیٹس کی قیمت لگ بھگ 13 ملین ڈالر ہے۔‘

العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں الزامات

2001 میں سعودی عرب میں العزیزیہ سٹیل ملز جلاوطنی کے دوران نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے قائم کی تھی، نیب نے اپنے ریفرنس میں الزام عائد کیا تھا کہ ’سٹیل ملز کے قیام اور ہل میٹل کمپنی کے اصل مالک نواز شریف تھے جب کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نواز شریف نے ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کمپنی سے بطور گفٹ 97 فیصد فوائد حاصل کیے تھے۔‘

احتساب عدالت سے سزا

آٹھ ستمبر2017 کو نیب نے سپریم کورٹ کے حکم پر نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف العزیزیہ سٹیل ملز، فلیگ شپ اور ایون فیلڈ ریفرنسز دائر کیے۔

26 ستمبر 2017 کو نوازشریف پہلی بار احتساب عدالت پیش ہوئے اور پھر پیشیوں کا طویل سلسلہ چلا۔ 21 فروری 2018 نوازشریف مسلم لیگ ن کی صدارت کے لیے بھی نااہل ہو گئے۔

6 جولائی 2018 میں عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں نوازشریف کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر 10 سال قید کی سزا سنائی اور معاونت پر مریم نواز کو سات سال اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کوایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔

ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کے وقت نواز شریف ملک میں موجود نہیں تھے۔ وہ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے اگست 2018 میں لندن روانہ ہوئے تھے۔

13 جولائی 2018 کو نوازشریف اور مریم نواز کو وطن واپسی پر لاہور ایئرپورٹ سے گرفتار کر کے جیل منتقل کر دیا گیا۔

پاکستان میں 2018 کے عام انتخابات 25 جولائی کو ہوئے تھے اور نواز شریف کو انتخابات کے بعد ضمانت ملی تھی۔

احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیلوں پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے 19 ستمبر 2018 کو سزائیں معطل کرکے تینوں کو ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔

عدالت نے دوران سماعت سوال اٹھایا تھا کہ ’پراسیکیوشن نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی قیمت کا تعین ہی نہیں کیا، ٹرائل کورٹ نے پورے فیصلے میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی قیمت کا ذکر کیے بغیر آمدن سے زائد اثاثوں پر سزا کیسے سنائی؟‘

احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں دسمبر 2018 میں سات سال قید اور جرمانوں کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس میں بری کر دیا تھا۔

نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کو غیر اخلاقی وڈیو اور اس کے باعث بلیک میل ہونے کا معاملہ سامنے آنے پر عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا اور برطرف جج کے بیان حلفی کو نواز شریف کی اپیلوں کے ریکارڈ کا حصہ بنایا جا چکا ہے۔




Source link

Facebook Comments

Related Articles

رائے دیں

Back to top button