fbpx
خبریں

شکوک کی گنجائش نہیں، حکومت طے تاریخ پر انتخابات یقینی بنائے: سپریم کورٹ

پاکستان کی عدالت عظمٰی نے جمعے کو کہا کہ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان انتخابات کے لیے طے کی گئی تاریخ پر بلا تعطل الیکشن کرائے جائیں اور وفاقی حکومت اس ضمن میں اپنی ذمہ داری کو یقینی بنائے۔ 

سپریم کورٹ کے ہدایت پر جمعرات دو نومبر کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی صدر پاکستان عارف علوی سے ملاقات کے بعد متفقہ طور فیصلہ کیا گیا تھا کہ عام انتخابات آٹھ فروری 2024 کو کرائے جائیں گے اور اس بارے میں جمعے کو عدالت عظمٰی کو بھی آگاہ کر دیا گیا۔ 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعے کو اس مقدمے کو نمٹا دیا۔   

عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی اعلان کردہ تاریخ پر بلا تعطل انتخابات ہوں جبکہ وفاقی حکومت آٹھ فروری 2024 کو انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے۔ تمام انتظامات پورے ہونے کے بعد الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول کا اعلان کرے۔‘ 

عدالت نے کہا ’اگر میڈیا نے انتخابات سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کیے تو وہ آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔‘

’کسی اینکر یا رپورٹر کو اجازت نہیں کہ مائیک پکڑ کر عوام کو گمراہ کرے، میڈیا انتخابات پر اثر انداز ہوا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔ میڈیا والے بتائیں کہ جھوٹ بولنا ان کا حق تو نہیں، میڈیا کی آزادی آئین میں دی گئی ہے ہم میڈیا کے خلاف کاروائی نہیں کر سکتے۔‘ 

90 روز میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل آف پاکستان سمیت دیگر فریقین کے وکلا روسٹرم پر آئے اور گذشتہ روز عدالت کی جانب سے دیے جانے والی ہدایات کے مطابق صدر عارف علوی سے الیکشن کمیشن حکام کی ہونے والی ملاقات کی تفصیلات پیش کیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کی۔

تفصیلات پیش کرنے کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا صدر مملکت عارف علوی نے خط لکھ کر آٹھ فروری کی تاریخ دی ہے جس پر ان کے دستخط موجود ہیں۔ انہوں نے عدالت کو یہ خط بھی پڑھ کر سنایا۔

’تمام ارکان  نے متفقہ طور پر تاریخ پر رضامندی دی لیکن کسی آئینی شق کا حوالہ نہیں دیا۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا عدالت صدر کے دستاویزات کی اصل کاپی رکھے گی۔ ’سب خوش ہیں ناں کسی کو کوئی اعتراض نہیں؟‘

 فریقین کے وکلا نے جواب دیتے ہوئے کہا ’ہم سب خوش ہیں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا الیکشن کمیشن نے انتخابات کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ’الیکشن کمیشن اور تمام فریقین کی رضامندی ہے۔ تمام ممبران نے متفقہ طور پر تاریخ پر رضامندی دی لیکن کسی آئینی شق کا حوالہ نہیں دیا، آئینی بحث کو آئندہ کے لیے چھوڑ دیا ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’امید کرتے ہیں آئندہ ایسی صورت حال پیدا نہیں ہو گی۔‘ 

جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ’آئینی بحث کو آئندہ کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ تمام فریقین بیٹھ جائیں حکم نامہ لکھوانے میں وقت لگے گا آپ لوگ تھک نہ جائیں۔‘

چیف جسٹس نے حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا ’قومی اسمبلی نو اگست کو وزیراعظم کی منظوری سے تحلیل ہوئی اور دو نومبر 2023 کو ہونے والی ملاقات کے بعد انتخابات کی تاریخ پر اتفاق ہوا۔ تمام صوبوں کے ایڈوکیٹ جنرلز عدالت میں موجود ہیں، تمام افراد کو ہم انتحابات کے لیے پابند کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا ’الیکشن کمیشن نے ستمبر کو صدر کے لکھ گئے خط کا کوئی جواب نہیں دیا جس کی تصدیق الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت میں کی، ادارے نے صدر کے خط ملنے کی بھی تصدیق کی۔ ‘

’پورا ملک اس شش و پنج میں تھا کہ ملک میں عام انتخابات نہیں ہو رہے۔ ہم اس بات کوسمجھتے ہیں کہ عدالت اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرے، ہم صرف یہ چاہتے تھے صدر اور الیکشن کمیشن کو facilitate کریں۔ آئین اور قانون پر عمل درآمد ہر شہری پر فرض ہے۔‘

عدالت نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہیں، اعلی آئینی عہدہ ہونے کی وجہ سے یہ صدر مملکت کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے۔

کچھ نے خدشے کا اظہار کیا کہ انتخابات نہیں ہوں گے۔ آئین کو نظر انداز کرنے کا کوئی آپشن نہیں۔ ہر آئینی دفتر رکھنے والا اور آئینی ادارہ بشمول الیکشن کمیشن اور صدر آئین کے پابند ہیں، آئین کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج ہوتے ہیں۔‘

چیف جسٹس نے لکھوایا کہ ’صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی وجہ سے غیر ضروری طور پر معاملہ سپریم کورٹ آیا، سپریم کورٹ آگاہ ہے ہم صدر اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتے۔‘

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 عدالت نے کہا کہ ’آئین سے انحراف کا کوئی آپشن کسی آئینی ادارے کے پاس موجود نہیں، آئین کو بنے 50 سال گزر چکے اب کوئی ادارہ آئین سے لاعلم ہونے کا نہیں کہہ سکتا۔‘

ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے لکھوایا کہ ’15 سال قبل آئین کو پامال کیا گیا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں متعدد بار آئین کو پامال کیا گیا۔‘

گذشتہ سال سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس نے لکھوایا اس کے ’بعد ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا اور سپریم کورٹ نے سیاسی معاملے پر از خود نوٹس لیا۔ صدر مملکت نے تحریک عدم اعتماد کے بعد قومی اسمبلی تحلیل کی جو غیر آئینی عمل تھا۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد صدر وزیراعظم کی ہدایت پر اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے۔‘

انہوں نے حکم نامہ میں لکھوایا کہ ’اب نہ صرف آئین پر عمل کرنے بلکہ ملکی آئینی تاریخ کو دیکھنے کا وقت آ گیا ہے۔ آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ ملکی اداروں اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے، عدالتوں کو ایسے معاملات کا جلد فیصلہ کرنا پڑے گا۔‘

’اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق کیس میں ایک جج نے کہا کہ صدر مملکت پر پارلیمنٹ آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کرے۔ عجیب بات ہے صدر مملکت نے وہ اختیار استعمال کیا جو ان کا نہیں تھا۔ ہم محسوس کر رہے ہیں کہ ہمارا کردار صرف سہولت کاری کا ہے۔‘




Source link

Facebook Comments

Related Articles

رائے دیں

Back to top button