fbpx
تبصرہ کتب

دہلی میں ’راکھ سے لکھی گئی کتاب /سرورالہدی (انڈیا)

دہلی میں ’راکھ سے لکھی گئی کتاب /سرورالہدی (انڈیا)

آج مجھے ’راکھ سےلکھی  گئی کتاب‘ ملی۔اسے دہلی کے ایک اہم اشاعتی ادارے ایم آر پبلی کیشنز نے شائع کیاہے۔اسلم پرویز (ممبئی)جو منٹو کے ایک اہم قاری اور محقق ہیں۔وہ یہ کتاب لے کر آئے۔یہ بھی ایک عجیب واقعہ ہے کہ کتاب دہلی میں شائع ہوئی لیکن مجھ تک کتاب ممبئی میں قیام پذیر ایک ادیب سے ملی۔اسی ادارے سے ناصر عباس نیر کی کتاب’جدید اور مابعد جدید تنقید‘کئی سال پہلے شائع ہو چکی ہے۔اس کادوسراایڈیشن بھی میرے پیش نظرہے۔’راکھ سے لکھی گئی کتاب‘ کایہ پہلا ہندوستانی اڈیشن ہے۔کوئی کتاب وقت پر ملی یاتاخیر سے،اس کافیصلہ بھی وقت ہی کرتاہے۔کتاب جب مل جائے تووہی وقت خوبصورت،تاریخی اور یادگار ہوتاہے۔بہت سی کتابیں بہت پہلے مل جاتی ہیں اور ہم انہیں توجہ سے پڑھ نہیں پاتے۔اور بہت سی کتابیں وقت سے پہلے شائع ہو جاتی ہیں جن کے قاری کا نہ تو کتابو ں کو علم ہوتاہے اور نہ مصنف کو۔لہذامیرایہ خیال ہے کہ’راکھ سے لکھی گئی کتاب‘ دہلی میں وقت پر شائع ہوئی ہے، اور مجھے یہ کتاب تاخیر سے نہیں ملی ہے۔وہ بھی ایک ایسی کتاب جو کہانیوں کی ہے اور جس کاتخلیقی رشتہ راکھ سے ہے، اس کے بارے میں زمانی نقطہ نظرسے فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔میر نے دنیا میں خاک کے موجزن ہونے کی بات کہی تھی۔لیکن جو خاک موجزن ہے اس میں راکھ بھی شامل ہوسکتی ہے یاہوتی ہے۔
خاک تھی موجزن جہاں میں اور
ہم کودھوکہ یہ تھاکہ پانی ہے
بس ذرادیر پہلے میں نے وہ کہانی ختم کی ہے، جس کاعنوان’راکھ سے لکھی گئی کتاب‘ہے۔ اس میں کئی ایسے جملے ہیں،جو میں نے کئی بار پڑھے۔اور ہر باریہ احساس ہواکہ انہیں لکھنا آسان نہیں ہے۔وہ بھی ایک ایسے نقاد کے قلم سے جسے دنیا، نظریاتی اور عملی تنقید سے جانتی ہے۔خود میں نے انہیں ان کی تنقیدی تحریروں سے دریافت کیاہے،اور ان کی آہٹوں کو محسوس کیاہے۔تنقیدی سرگرمیاں اگرتخلیقی بن جائیں توایک معنی میں تنقید کی زبان پر حرف آتاہے۔گوکہ ایسی تنقید کی مثالیں موجود ہیں جو تخلیق اور تنقیدکابہترین امتزاج پیش کرتی ہیں۔لیکن ایسا مشکل ہوتاہے کہ تنقیدی سرگرمیاں بہت خاموشی کے ساتھ تخلیقی سرگرمیوں کاحصہ بن جائیں۔تنقید کامنطقی،تجزیاتی اورعلمی ذہن کہانی میں جس سطح پر اور جس طرح فعال ہوناچاہیے اس بارے میں نظری گفتگو سے کہیں زیادہ بہتر یہ ہے کہ کہانی پرھی جائے۔ناصر عباس نیرکے مطالعے نے ان کی کہانی کو پیش رواور معاصر کہانی کاروں سے الگ کرنے میں اہم کردار ادا کیاہے۔مجھے یہ محسوس ہوتاہے کہ مطالعے کاادب میں کوئی بدل نہیں ہے۔اگرتنقیدی سرگرمیاں تخلیقی سرگرمیوں کو کوئی رخ عطاکر سکتی ہیں تو اس بارے میں ہمیں سنجیدگی سے غور کرناچاہیے۔اب اس کاوقت نہیں رہا کہ ہم کسی نقاد کی کہانی یاشاعری کو ضمنی سی سرگرمی قرار دیں۔نقاد شاعر،نقاد کہانی کار یہ سب اصطلاحیں اپنی جگہ تاریخی سیاق رکھتی ہیں مگر ان اصطلاحوں کی گرفت میں آکر کسی شاعری یا کہانی کو پڑھنا ایک طرح سے ذہن کو مسدود کرناہے۔
’راکھ سے لکھی گئی کتاب‘ کو پڑھتے ہوئے اور پڑھنے کے بعد توبۃ النصوح کاخیال آیا جس میں نصوح کلیم کی پرانی کتابوں کو جلادیتاہے۔ان میں دریائے لطافت بھی شامل تھی۔نصوح کے ذریعہ کتابوں کو خاکستر کیے جانے کا نو آبادیاتی سیاق ہے جس کاتجزیہ خود ناصر عناس نیر نے اپنے مضمون میں کیاہے۔نصوح نے بہت پہلے دلی میں پرانی کتابوں کو جلایاتھا۔ آج راکھ سے لکھی گئی کتاب کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوا کہ جیسے کلیم کی جلی ہوئی کتابوں کی کچھ بچی ہوئی راکھ وقت کو عبور کرتے ہوئے،’راکھ سے لکھی گئی کتاب‘میں شامل ہوگئی ہے۔گو کہ راکھ سے لکھی گئی کتاب کاموضوع مختلف ہے۔توبۃ النصوح کاکینوس بھی ناول کاہے مگرراکھ سے لکھی گئی کتاب میں ایک جملہ یہ بھی ہے جس سے مجھے توبۃ النصوح کی پرانی کتابوں کاخیال آیا۔’پرانی کتابوں کو جلا ہوادیکھنے کے لیے وہی جگر چاہیے جو کٹے ہوئے جسموں کو دیکھنے کے لیے درکار ہوتاہے۔‘ جلے ہوئے کاغذات، قلعہ کی ویرانی،آوارہ گردی اور خواب یہ سب کچھ ہماری عام زندگی کاتجربہ ہے۔لیکن جلے اور ادھ جلے کاغذات کو جمع کر کے ایک نئی کتاب کومرتب کرنے کاخیال اردو کہانی میں ایک نیاتجربہ ہے۔اس ضمن میں کئی ایسے جملے ہیں،جو قاری کو نئی دنیامیں لے جاتے ہیں جو مانوس ہوتے ہوئے بھی غیر مانوس معلوم ہوتی ہے۔اس عمل میں ناصر عباس نیر نے کہانی کی زبان کو غیر ضروری طور پر منفرد،مشتعل اور دہشت ناک بنانے کی کوشش نہیں کی۔خصوصااس مقام پر جہاں قلعہ کی ویرانی،خاموشی اور کسی دور سے آتی ہوئی آواز کا ذکرہے۔ کہانی سے چند جملے ملاحظہ کیجیے۔
”جو شخص دنیا کو چل پھر کردیکھتاہے اور اپنی نظرسے دیکھتاہے وہی راکھ سے نئی کتاب ترتیب دے سکتاہے۔حالانکہ مجھے وہ ملازمت پہلے ہی دے چکاتھا۔اب مجھ پر کھلاہے کہ یہ اس دنیاکے آوارہ گرد کے لیے لکھی ہوئی کتابیں نہیں تھیں۔یہ ایک ایسے شخص کے لیے لکھی گئی کتابیں ہیں جو چلتااسی زمین پر ہے مگر سوچتااس زمین کو نہیں ہے اس کے پاؤں میں اسی زمین کاکوئی کانٹاچبھتاہے تو ادھر ادھر،اوپر دیکھنے لگتاہے۔اس سے وہ ابتلا میں رہتاہے۔یہ سب کتابیں اس کی ابتلاکودور کرنے کی خاطرلکھی گئی ہیں۔اسے یقین ہے کہ جو شخص کتاب لکھ لیتاہے اس کاتعلق اس دنیا سے ہوتاہے جہاں کانٹے نہیں ہیں،جہاں ابتلانہیں ہے۔“

Facebook Comments

Related Articles

رائے دیں

Back to top button