fbpx
کالم

ہم کس کے لیے لکھتے ہیں؟ /ناصر عباس نئیر

ہم کس کے لیے لکھتے ہیں؟ /ناصر عباس نئیر

ترک نوبیل انعام یافتہ اورخان پاموک ، اپنے ناول  “سرخ میرا نام ” میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ وہ مصور جو اپنے ناظرین  کے ممکنہ ردّعمل کو سامنے رکھتا ہےاور ان کی پسند ناپسند کا خیال رکھتا ہے ،اپنے خلاف جرم کا ارتکاب کرتا ہے “

نیز ایک معاہدے کی شرائط توڑتا ہے(یہ وضاحت میری ہے)۔ کیوں کہ وہ فن کے لیے نہیں، کسی اور شے کے لیے کام کرتا ہے اور یہ اس کی اپنی حقیقی ذات نہیں ہے جس کی پسند ناپسند کا وہ خیال رکھ رہا ہو۔ آدمی کی حقیقی ذات اور ” دوسروں ” کی مسلط کردہ ذات میں فرق کی لکیر کا علم ہر مصنف کو ہونا چاہیے۔
جب آپ کسی صنف میں لکھنا شروع کرتے ہیں تو گویا اس صنف سے ایک خاموش معاہدہ کرتے ہیں۔  آپ اس کی شعریات،اخلاقیات، جمالیات، رسمیات وغیرہ میں ایجاد پسندی کا مظاہرہ تو ضرور کریں گے ،مگر انھیں پامال نہیں کریں گے؛ اس کی پہلے سے قائم شناخت میں کچھ اضافہ کریں گے،اور اس کے لیے اس کی روایت ورسمیات کو ضرورت پڑنے پر چیلنج بھی کریں گے ، ان سے انحراف بھی کریں گے مگر اس کی شناخت کو مسخ نہیں کریں گے۔
جب وہ آپ کے قلم یا موقلم سے نکل کر دنیا میں پہنچے گی تو وہ اپنے زخمی، مسخ ، مضمحل ، لولے لنگڑے وجود کے ساتھ نہیں، کہیں بہتر، تروتازہ و توانا صورت میں پہنچے گی اور آپ کوتاریخ کے نادیدہ انسانوں کے ایک عظیم سلسلے سے منسلک کرے گی ۔ یعنی آپ معاہدہ نہیں توڑیں گے۔
ناول میں تتلی نام کا ایک منی ایچر مصور،چاول کے دانوں اور ہاتھوں کے ناخنوں پر چھوٹی چھوٹی ،ناقابل فہم تصویریں بنانے میں طاق ہے ، اور اس کا مدمقابل تلاش کرنا مشکل ہے مگر استاد عثمان کے بہ قول اس کی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنی غیر معمولی فنی صلاحیت کے باوجود ،وہ فن کی محبت میں نہیں بلکہ اس خوشی کا تصور کرکے مصوری کرتا ہے ، جودوسرے اس کی تصویریں دیکھ کر محسوس کیا کرتے۔ وہ بلاشبہ “اچھا ” مصور ہے ، اسے فن پر قدرت حاصل ہے،اپنے فن کے ذریعے دوسروں کو متاثر کرنے کی غیر معمولی صلاحیت بھی ہے،مگر وہ خود سے اور فن سے “دیانت دار ” نہیں ہے۔
آپ کا اچھا مصنف ہونا، آپ کے سچے اور دیانت دار ادیب ہونے کی ضمانت نہیں۔

اگر آپ دوسروں کے ممکنہ ردّ عمل کو سامنے رکھ کر لکھتے ہیں، ان کی خوشی یا ناراضی کو سامنے رکھ کر لکھتے ہیں، کسی بیرونی ترغیب ،لالچ،خوف کا شکار ہوکر لکھتے ہیں تو آپ کو اس سچائی کا سامنا کرنا چاہیے کہ آپ غرض مند ہیں، بزدل ہیں، مفاد پسند ہیں اور ایسے میں آپ نہ تو خود اپنی حقیقی روح کا اظہار کرسکتے ہیں،نہ آپ کے قلم سے فن اپنی اصل کے ساتھ خود کو ظاہر کرسکتا ہے۔

فن آدمی کے وجود کی گہرائی سے ، جہاں ایک بے عیب،ہر طرح کے غیر کے احساس سے آزادخاموشی وجود رکھتی ہے ، پھوٹتا ہے۔ایک حقیقی مصنف اس لیے لکھتا ہے کہ ان آوازوں کو سنا جاسکے جو پہلی بار آپ کے توسط سے اپنا اظہار کرنا چاہتی ہیں۔ضروری نہیں کہ یہ آوازیں صرف آپ کی اپنی ذات سے متعلق ہوں ، یہ آپ کے ارد گرد کی حقیقی دنیا، حقیقی انسانوں ، تاریخ ، تہذیب سے متعلق بھی ہوسکتی ہیں۔ آدمی اپنے وجود کی آخری حدوں میں بھی اپنے ہم جنسوں اور اس کائنات کی دیگر مخلوقات سے ایک گہرے تعلق کو محسوس کرسکتا ہے اور انھیں “غیر ” سے الگ کرسکتا ہے، اگر وہ خود کو “دوسروں “کے خوف، لالچ، اورمقبولیت اور اعزازات کی منھ زور خواہش سے آزاد محسوس کرسکے۔

Facebook Comments

Related Articles

رائے دیں

Back to top button