fbpx
بلاگ

سیلاب اور حاملہ خواتین / تحریر : نور فاطمہ

سیلاب اور حاملہ خواتین / تحریر : نور فاطمہ

 

سیلاب سے متاثرہ حاملہ خواتین

تیسری دنیا کے کئی مسائل ہیں اور ان ہی میں سے ایک بڑا مسئلہ اولاد نرینہ کا حصول ہے۔ پاکستان تیسری دنیا کا ایک غریب ملک ہے۔ اتنا غریب ہے کہ سیلاب و دیگر آفات کے آتے ہی بیرونی دنیا کی جانب مدد کے لیئے پکارتا ہے۔۔

ہمارے جیسے سماج کا المیہ یہ ہے کہ تعداد میں ہیں تو بے تحاشہ لیکن پھر بھی ہر سال ” نکا ” دیکھنے کی آرزو نے ماؤں کی صحت کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔

آپ رونا روتے رہیں مہنگائی کا، آفتوں کا، پریشانیوں کا، کم آمدنی کا، لیکن جیسے ہی آپ فیملی پلاننگ اور برتھ کنٹرول کی بات کریں گے ہر بندہ آپ کے پیچھے ڈنڈا لے کر دوڑ پڑے گا۔ سب سے زیادہ دکھ اور حیرانی اس بات کی ہوتی ہے کہ خود خواتین بھی اس بات کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

بہرحال دنیا میں آنے والا ہر بچہ اس بات سے بے خبر ہے کہ یہاں سیلاب آیا ہے اور جب وہ اس دنیا میں آئے گا تو وہ بےگھر ہوگا اس کے پاس وسائل نام کو نہ ہوں گے اسے زندہ رہنے کے لیئے ایک مضبوط اور توانا انسان سے زیادہ مشقت کرنا پڑے گی۔

تیسری دنیا کے ممالک، باالخصوص پاکستان، کو چھوڑ کر بیرونی دنیا کا تجزیہ کریں تو وہاں بچہ پیدا کرنے والوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس کی حفاظت کریں اور اسے ایک محفوظ ماحول مہیا کریں۔ جس میں اس کی اچھی نشونما ہو سکے۔ اس سارے مرحلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے۔ جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں وجود میں آئے 75 سال ہو چکے ہیں مگر آج تک ہم اپنے نازک دور سے باہر نہیں نکل سکے۔

کھانا پینا اور صحت ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے، آج سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لوگ بے سروسامانی کے عالم میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

جہاں ہم جیسے لوگ میڈیا کے ہر فورم پر سیلاب متاثرین کے کھانے پینے رہنے سہنے کے بارے میں بات کررہے ہیں وہیں ہمیں صحت کے حوالے سے بھی پریشانیوں کا ذکر کرتے رہنا چاہیئے تا کہ ریاست اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور اس حوالے سے سنجیدگی سے کام کرے۔

اکیسویں صدی میں آج ہماری خواتین، بچے بچیوں کو جن مسائل کا سامنا ہے انہیں سمجھنا اور ان مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی سے کوشش کرنا  سماجی رویوں نے اور  ثقافتی رکاوٹوں نے مشکل بنایا ہوا ہے۔

جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان، اور خیبر پختونخواہ کے بیشتر علاقے سیلاب کی وجہ سے شدید متاثر ہیں۔ ان تمام علاقوں میں خواتین کا اپنی تکلیف بیان کرنا یا اپنے مسائل پر بات کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ خواتین خود بھی اس بات سے بے خبر ہیں اور اپنی صحت کے حوالے سے کھل کر بات کرنا باعثِ شرمندگی اور معیوب سمجھتی ہیں۔ مگر ہم اگر غور کریں تو پاکستان میں ہر قدرتی آفت یا عام حالات میں بھی سب سے زیادہ متاثر خواتین اور بچے ہی ہوتے ہیں۔

عالمی ادارے یو این ایف پی، کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں لگ بھگ 65 لاکھ سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہیں اور انہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔ جبکہ پاکستانی حکومت کے اندازوں کے مطابق تقریبا تین کڑوڑ تیس لاکھ افراد سیلابی صورتحال کی وجہ سے شدید متاثر ہیں۔ جن میں سے ایک بڑی تعداد ایسی خواتین کی ہے جو حاملہ ہیں۔

عالمی ادارے کی رپورٹ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس وقت تقریبا ساڑھے چھ لاکھ خواتین حاملہ ہیں اور انہیں صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے بچے اور ماں دونوں کی صحت کو یقینی بنایا جا سکے۔

ساڑھے چھ لاکھ خواتین میں سے تہتر ہزار (73,000) خواتین تو ایسی ہیں جو ایک مہینے کے اندر لیبر میں جائیں گی۔ ان ماؤں اور نوزائدہ بچوں کو دیکھ بھال اور طبی سہولیات کی فوری ضرورت ہے۔ ان خواتین کو ہنگامی بنیادوں پر طبی معائنوں اور ان کی غذا کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں عام حالات میں عذائی قلت ہوتی ہے جس کی مثال تھرپارکر ، مٹھی اور چھاچھرو وغیرہ کے علاقے ہیں۔ جہاں بہتر خوراک کا نہ ہونا ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے جس کے باعث ہر سال کئی سو بچے وفات پا جاتے ہیں اور کئی مائیں دوران حمل فوت ہو جاتی ہیں۔

یہ تو عام حالات کی بات ہے جب کہ اب تو سیلاب نامی ایک مصیبت نے قریب ڈیڑھ ماہ سے سر اٹھایا ہوا ہے۔
سرکار کی جانب سے عوام تک بہتر غذا اور ان کے لیئے طبی سہولیات کا نہ پہنچنا ایک سنگین معاملہ ہے، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں غذائی قلت اور صحت کے مسائل اب سیلاب کے بعد اپنی تباہ کاریاں دکھانے کے لیے سر اٹھانے والی ہے۔

بعض علاقوں سے تو اب یہ خبریں بھی متواتر میڈیا کا حصہ بن رہی ہیں کہ غذائی قلت کی وجہ سے کئی خواتین کو حمل کے دوران طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ غذائی قلت سے حاملہ خواتین کی اور ان کے بطن میں موجود بچے کی جان کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔
غذائی قلت کے باعث یہ خواتین توانا نہیں رہیں گی جس کی وجہ سے بچے اور ماں کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔

بچے کی پیدائش کے بعد بھی زچہ و بچہ دونوں کو ہی بھرپور غذا کی ضرورت ہوتی ہے اگر ماں خود ہی توانا نہیں ہوگی تو وہ اس نوزائدہ بچے کو دودھ پلانے کے قابل بھی نہیں رہے گی۔

سرکار سمیت ان معاملات پر کام کرنے والے نجی اداروں کو فوری طور پر ان خواتین کی نشاندہی کرنا چاہیے اور انکے لئے جتنا ممکن ہوسکے موبائل اسپتال وغیرہ کی سہولیات سمیت پیرامیڈیکل اسٹاف کی موجودگی کو ہر علاقے میں یقینی بنانا ہوگا۔

ضلع و تحصیل کے ہسپتالوں میں میڈیکل ایمرجنسی لگا دینا چاہیئے۔ حاملہ خواتین کے لیئے خصوصی وارڈز تیار کر کے انہیں جلد از جلد وہاں منتقل کرنا چاہیے۔ زچہ و بچہ کے لئے لازمی دواؤں کا حصول اور بلڈ بینک کی سہولت ہر وقت ممکن ہونا چاہیے تا کہ کسی بھی پیچیدگی سے ہنگامی طور پر نمٹا جاسکے۔

اس ہی معاملے کا ایک دوسرا پہلو صفائی ستھرائی ہے۔ صفائی کی صورتحال ابتر ہے ہونے کی وجہ سے بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ اگر صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھا جائے تو بچے کو اس دنیا میں لانے کے مراحل بھی انتہائی مشکل ہوں گے۔

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پینے کا صاف پانی ملنا بڑی نعمت ہوتی ہے اور ایسے میں دودھ اور بھرپور غذا کی امید لگانا ہمارے جیسے سماج میں دیوانے کا ایک خواب ہے۔

اس وقت یہ پیش گوئی کرنا مشکل نہیں کہ فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آگے صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔
موجودہ صورتحال کو اگر اس وقت قابو نہیں کیا گیا تو تقریبا ساڑھے چھ لاکھ خواتین اور تقریبا ساڑھے چھ لاکھ نوزائیدہ بچوں کی زندگی خطرے کی لکیر عبور کر لے گی۔

اس بات کا ذکر بھی بہت ضروری ہے کہ ان بچوں کے دنیا میں آجانے کے بعد بھی ان کی زندگی کو خطرہ ہے اس لیے انہیں طبی سہولیات اور رہنے کے لیے محفوظ جگہ کا انتظام ہنگامی بنیادوں پر کرنا ہوگا۔ نہیں تو ہمیں ایک بہت بڑے سانحے کے بعد ایک بہت بڑے المیہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یاد رکھیں اگر آپ اپنے مستقبل کے معماروں کو کسی بھی بیماری یا معذوری سے بچانا چاہتے ہیں تو ان کے لیے ابھی سے آواز اٹھانا ہوگی۔۔

 

Facebook Comments

Related Articles

رائے دیں

Back to top button